Minister of Foreign Affairs Pakistan Shah Mehmood Qureshi Giving Brief in National Assembly
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب
میں کچھ حقائق کووڈ 19 کے حوالے سے ایوان میں پیش کرنا چاہوں گا
یہ ایک غیر معمولی، عالمی وبائی صورتحال ہے
دوسری جنگ عظیم کے بعد بنی نوع انسان کو پیش آنے والا یہ دوسرا بڑا چیلنج ہے جس کا سامنا 209 سے زائد ممالک کر رہے ہیں
پارلیمنٹ کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہم نے حکومتی بنچز اور اپوزیشن کی آراء کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس اجلاس کے انعقاد کا فیصلہ کیا
مختلف ممالک اس کی ویکسینیشن کے حوالے سے کام کر رہے ہیں لیکن ابھی تک اس وائرس کا کوئی علاج سامنے نہیں آ سکا اس ویکسین کے منظر عام پر آنے میں اٹھارہ ماہ یا دو سال کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے
دنیا بھر میں اس وقت 4 ملین سے زائد لوگ اس وبا سے متاثر ہو چکے ہیں
10مئ تک سامنے آنے والے اعدادوشمار کے مطابق دو لاکھ اسی ہزار سات سو افراد اس وبا کی وجہ سے لقمہ اجل
بن چکے ہیں
وہ ممالک جو ترقی یافتہ ہیں اور زیادہ بہتر ہیلتھ سسٹم کے حامل ہیں ان کے حالات آپ کے سامنے ہیں
امریکہ جیسے مستحکم ملک میں کرونا وبا سے ہونیوالی اموات کی تعداد 80ہزار سے زائد ہے - برطانیہ میں 31 ہزار سے زائد،اٹلی میں 30 ہزار اور فرانس میں 26000 سے زائد اموات ہو چکی ہیں
اگر اس کا تجربہ پاکستان سے کریں تو پاکستان ميں ابتک 661 لوگ کرونا وائرس کی وجہ سے زندگی کی بازی ہارے،
ہمارے ہاں کنفرم کیسز کی تعداد 29000 سے زائد ہے جبکہ 8023 لوگ اب تک صحت یاب بھی ہو چکے ہیں
جب 26 فروری کو کرونا کا پہلا مثبت کیس کراچی میں سامنے آیا اس وقت ہماری ٹسٹنگ استعداد 100 ٹیسٹ یومیہ کرنے کی تھی لیکن آج اللہ کے فضل و کرم سے 20،000 ٹیسٹ یومیہ ہو چکی ہے
وبا شروع ہونے کے وقت ہمارے پاس پورے ملک میں محض 8 ایسی لیبارٹریاں موجود تھیں جہاں کرونا ٹیسٹ کی سہولت موجود تھی لیکن آج ملک بھر میں 70 لیبارٹریز کرونا ٹیسٹنگ کر رہی ہیں یہ بتدریج اضافہ آپ کے
سامنے ہے
10 مئ تک میسر اعدادوشمار کے مطابق اب تک 283،517 کرونا ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں
مجھے اعتراف ہے کہ یہ استعداد ناکافی ہے لیکن ہم انشاءاللہ بتدریج اس میں اضافہ کریں گے
لیکن مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے جنوبی ایشیا میں پاکستان کی ٹسٹنگ استعداد سب سے زیادہ ہے
مجھے اب کچھ حقائق آپ کے گوش گزار کرنا ہیں
اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے صحت صوبائی سبجیکٹ بن چکا ہے
اس آئینی ترمیم کے بعد
پاکستان پیپلز پارٹی گزشتہ 12 سالوں سے سندھ میں برسر اقتدار ہے پاکستان مسلم لیگ نون تقریباً 10 سال تک پنجاب میں حکومت کرتی رہی ہے
تقابلی جائزے کی رو سے ہمارے ہاں، جہاں کرونا انفیکشن کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں شرح اموات میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے دنیا میں کرونا وبا سے اموات کی شرح 6.8 فیصد جبکہ ہمارے ہاں 2.17 فیصد ہے
اگرچہ پاکستان نے ابھی نکتہ عروج کو چھونا ہے لیکن ابھی تک صورت حال کافی بہتر ہے
ہم نے اس وبا کا مقابلہ کرنے کیلئے کچھ بنیادی فیصلے کیے کچھ اصول مرتب کیے
ہم نے دو فورم تشکیل دیے-وزیر اعظم کی سربراہی میں نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی اور اسد عمر کی زیر صدارت این سی او سی کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ تمام فیصلے باہمی مشاورت کے ساتھ کیے جا رہے ہیں
وزیر اعظم عمران خان نے 14 مارچ کو نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، آزاد کشمیر کے وزیر اعظم اور جملہ اسٹیک ہولڈرز شریک ہوئے
اس اجلاس میں کی گئی مشاورت کے نتیجے میں
نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے اب تک 11 اجلاس ہو چکے ہیں اس میں بھی تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے فیصلے کیے جاتے ہیں
27 مارچ کو این سی او سی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا اجلاس روزانہ 9 سے گیارہ بجے تک ہوتا ہے اس میں بھی تمام فیڈریٹنگ یونٹس کو نمایندگی دی گئی تمام صوبائی چیف سیکریٹریز اس اجلاس میں شریک ہوتے ہیں
این سی او سی کا مقصد تمام صوبوں سے کرونا کی تازہ ترین صورت حال جانچنا، تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ باہمی مشاورت کے بعد ایک مشترکہ اور متفقہ لائحہ عمل، ایک نیشنل اسٹریٹجی ترتیب دینا ہے
ہم جانتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بہت سے اختیارات صوبوں کو تفویض ہو چکے ہیں ہم صوبائی خود مختاری کی تعظیم کرتے ہیں انہیں لچک ملنی چاہیے
این. سی سی اور این سی او سی کے اجلاس ہوتے ہیں بہت سے نکات پر اتفاق ہو جاتا لیکن زمینی اور ہوائی راستوں کی بندشوں کے حوالے سے اختلاف رائے سامنے آیا-ہم نے اس کا احترام کیا
جب میں بعض رہنماؤں کی آراء یا بیان سنتا ہوں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے
وفاق کی جانب سے سندھ کے ساتھ نارواسلوک کا الزام درست نہیں
کرونا وائرس کسی حدود و قیود کو نہیں مانتا - یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم. خیبر پختون خواہ اور پنجاب کو محفوظ بنائیں اور باقی صوبوں کو چھوڑ دیں یہ ممکن نہیں ہے
ہندوستان نے اپنے ہی ملک میں بسنے والے مسلمانوں کو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا موجب قرار دے کر ان کے ساتھ ناروا سلوک برتا جا رہا ہے کرونا جہاد کو روکنے کی باتیں ہو رہی ہیں عالمی برادری کو ہندوستان کے رویے کا فوری نوٹس لینا چاہیے پاکستان اس کی شدید مذمت کرتا ہے
قم سے تفتان تک 5000 لوگوں کو اچانک بھیج دیا جاتا ہے میری ایران کے وزیر خارجہ سے بات ہوئی اور میں نے انہیں درخواست کی کہ ہمیں انتظامات کا وقت دیں لیکن معاشی قدغنوں کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکے
میں بلوچستان حکومت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جو انہوں نے بہترین کاوشیں بروئے کار لائیں
تفتان بارڈر سے وطن واپس آنے والے 1250 زایرین کو ملتان میں قائم کوارنٹائین سینٹرز میں رکھا گیا ان کا ہر طرح سے خیال رکھا اور بعد ازاں ان کے نتائج منفی آنے پر انہیں گھر بھجوا دیا گیا
وفاقی حکومت نے معاشی مضمرات سے نمٹنے کیلئے احساس پروگرام شروع کیا
10 مئی تک کے اعداد و شمار کے مطابق صرف سندھ میں وفاقی حکومت کے احساس پروگرام کے تحت 26 ارب روپے تقسیم کیے گئے جس سے 23 لاکھ خاندان مستفید ہوئے
وفاقی حکومت کی جانب سے 1.2 ٹریلین روپے کے معاشی بحالی پیکج کا اعلان کیا سندھ سمیت پورے ملک کو فائدہ ہوگا
کہا گیا کہ کرونا حفاظتی سامان صوبوں کو ان کے تناسب سے نہیں ملا
کرونا حفاظتی لباس جن کی کل تعداد 5لاکھ بتالیس ہزار تھی ان میں سے 209143 پنجاب جبکہ 154534 سندھ کو دیے گئے جو آبادی کی شرح سے کہیں زیادہ بنتے ہیں
این ڈی ایم اے فیس ماسکس کی کل تعداد 44،69030 تھی جس میں سے پنجاب کو 9،79،106 جبکہ سندھ کو 8،26،163 ماسک دیے گئے
این 95 ماسکس کی کل تعداد 1،99،555 تھی جس میں سے 60،784 پنجاب اور 30،142 سندھ کو بھجوانے گیے
کرونا کی وجہ سے بے روزگار ہونیوالوں کیلئے وفاقی حکومت نے 75 ارب کے معاشی پیکج کا اعلان کیا ہے جو پورے ملک کیلئے ہو گاجس سے 40 سے 60 لاکھ اشخاص پورے ملک مستفید ہوں گے
بجلی کے بلوں کی مد میں دی جانے والی رعائیت سے 40 ہزار صنعتوں کو فایدہ ہو گا
وفاقی حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹور کیلئے 50 ارب روپے مختص کئے ہیں - سندھ میں موجود تمام یوٹیلیٹی اسٹورز بھی اس سے مستفید ہوں گے
نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ میں صوبوں کو اضافی فنڈز مل رہے ہیں
ہماری سوچ علاقائی نہیں قومی ہے
میں نے جوانی کے کئ سال پاکستان پیپلز پارٹی میں گزارے جو ہمیشہ وفاق کی بات کرتی تھی آج اس پارٹی میں صوبائی تعصب کی بو آتی ہے
آج وقت آ گیا ہے کہ ہمیں بحیثیت پاکستانی سوچنا ہے صوبائی کارڈز سے اجتناب کرنا ہے
آج کہا جا رہا ہے کہ حکومت لاک ڈاؤن میں نرمی کیوں کر رہی ہے؟
یہ بحث پوری دنیا میں چل رہی ہے
آج عالمی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ عالمی معیشت 3 فیصد تک سکڑ رہی ہے اس سے اربوں ڈالرز کا نقصان ہو گا
ہمیں دو چیلنجز کا سامنا ہے ہمیں لوگوں کو کرونا وائرس سے بھی بچانا ہے اور افلاس سے بھی پاکستانیوں کو بچانا ہے
میں کچھ حقائق پیش کرنا چاہتا ہوں
پاکستان کا انفیکشن کا کرو دنیا سے مختلف ہے یورپ اور امریکہ سے مختلف ہے
کوئی نہیں جانتا کہ ہمارے ہاں کرونا وائرس کی شرح انتہا کب ہو گی ہم. صرف اندازہ لگا سکتے ہیں
مراد علی شاہ صاحب نے اچھا کام کیا لیکن ان کی کوششوں کے باوجود نتائج اس طرح موثر برآمد نہیں ہوئے
کرونا کی وجہ سے پاکستان ميں 18.6ملین لوگ جاب لیس ہونے کا خطرہ ہے
اگر ہم. لاک ڈاؤن کو سہل نہ کرتے تو 21 سے 71 ملین لوگوں کے شرح غربت سے نیچے جانے کا خطرہ تھا
ہمیں میسر ڈیٹے کو سامنے رکھنا ہے کوئ ملک تنہا اس وبا سے نہیں لڑ سکتا
ہندوستان کے رویے کی وجہ سے انسانیت کی خاطر ہم نے سارک کانفرنس میں شرکت کی
Comments
Post a Comment